آج بنام ِامن جو دہشت گردی ہے دنیا میں
اس سے دنیا والوں نے یہ بات سمجھ لی ہو گی
جنگل کا قانون ہے اب بھی دنیا بھر میں لاگو
جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہو گی بھینس اُسی کی ہو گی
نوید ظفر کیانی کے تلخ و شیریں قطعات کا مرکز
آج بنام ِامن جو دہشت گردی ہے دنیا میں
اس سے دنیا والوں نے یہ بات سمجھ لی ہو گی
جنگل کا قانون ہے اب بھی دنیا بھر میں لاگو
جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہو گی بھینس اُسی کی ہو گی
بیروت ہو بغداد ہو وانا ہو کہ کابل
یُو این او کے در پر ہیں عبث شائقِ انصاف
دنیا کے وڈیروں کا عقیدہ ہے ازل سے
پسینے کا چکا دیں محنتانہ
لہو کے قرض پلے پڑ نہ جائیں
جو حق مزدور کا ہے اُن کو دے دیں
کہیں لینے کے دینے پڑ نہ جائیں
خدا جانے کہ سارے مالکوں کو
دکھائی دیتے ہیں کیوں شُوم مزدور
لگا دیتے ہیں اس مد میں کروڑوں
کہ لاکھوں سے رہیں محروم مزدور
اپنے وطن کی ہم کبھی تعریف کرتے ہی نہیں
حُبِ وطن کے باب میں سب کا بلڈ ہے کولڈر
جا کر اسمبلی میں کوئی دیکھےترقی کا گراف
پہلے انگوٹھا چھاپ تھے اب جعلی ڈگری ہولڈر
ہم مسلمان تو ہر بار ظفر
سخت رمضان کی آمد کر دیں
کھانے پینے کی سبھی چیزوں کی
کیا سوچ کے ہم جشن آزادی مناتے ہیں
جس دور میں خودداری کج رائی ہے خامی ہے
پوچھے تو کوئی جا کے یہ قوم کے لیڈر سے
ٹھیک ہے سرکار کا اعلامیہ
میڈیا کے دعوے تو سچے نہیں
وہ جو زرداری پہ برسے تھے ظفر
یہ قتل یہ فساد یہ ڈاکے یہ حادثے
اخبار دیکھ کر مجھے چکر سا آ گیا
کیا واقعی یہ آج کا اخبار ہے ظفر
یا تو کسی وکیل کی فائل تھما گیا
طمع کس کی ہے جو خفتہ ہے اب تک
نظر کس کی ہے جو کانی نہیں ہے
کرپشن سب کی ظاہر ہو چکی ہے
یہ ٹوپی اب سلیمانی نہیں ہے
تیرے وعدوں پر یقیں آتا ہے کم
جھوٹ کا طومار لگتے ہو مجھے
ہانکتے ہو اِس قدر بے پر کی تم
شام کا اخبار لگتے ہو مجھے
حضرتِ بش کی ہمسری پائے
ہر کسی کا یہ مرتبہ نہ ہوا
سچ تو یہ ہے کہ صدر زرداری
جوتیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
کرتے رہے جو صرفِ نظر اپنی قوم سے
اُن لیڈروں کی دہر میں سبکی بڑی ہوئی
احساس مر نہ جائے تو زرداری کے لئے
کافی ہیں سر پہ جوتیاں دو ہی پڑی ہوئی
حماقت پہ قائم رہیں لوگ دائم
پھلے اور پھولے سیاست کا پیشہ
وطن والے سارے جہنم میں جائیں
میاں اور زرداری کھپیں ہمیشہ
شریفوں کے نہیں ہوتے ہیں یہ لچھن
کہے دیتا ہوں تجھ سے گالیاں نہ دے
میں تیرے کان جڑ سے کھینچ ڈالوں گا
ابے الّو کے پٹھے گالیاں نہ دے
جب ظفر یاب تھے کیا کیا تھے ہمارے ہیرو
اب جو ناکام ہوئے ہیں تو لگے کیا مس فٹ
کیوں نہ ہر میچ میں ٹھینگوں کے انعامات ملیں
گلی ڈنڈے کی طرح کھیل رہے ہیں کرکٹ
بھاڑ میں جائے ملک کی غربت
اور تولید کی بڑھے رفتار
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس بیٹے ہوں پچاس ہزار
معاشی مسئلہ ہو یا سیاسی
بلائے جان بنتا جا رہا ہے
یہ پاکستان یہ اپنا وطن بھی
مسائلستان بنتا جا رہا ہے
قوم نے ہر آمر کو بھگایا
اور جمہوری بھوت لئے ہیں
روٹی کپڑا مکاں والوں نے
گولی کفن تابوت دئے ہیں