راستہ راست ہے نہ فردِ عمل سیدھی ہے
اب تو اخبار جو دیکھوں تو یہ نکلے منہ سے
اونٹ رے اونٹ تری کون سی کل سیدھی ہے
نوید ظفر کیانی کے تلخ و شیریں قطعات کا مرکز
سیاست کی چرخی بھی چلتی رہی
وزیروں مشیروں کے دوروں کے ساتھ
دکھاتے رہے ہاتھ سیلاب میں
علی بابا چالیس چوروں کے ساتھ
کام جیسے اور اپنا کوئی دنیا میں نہیں
کاوشِ دنیا و دیں سے مل چکی یکسر نجات
ہوبہو مِرگی کی صورت بن گئی ہے شاعری
ڈھل چکا عشق عقد میں جن کا
وہ دوبارہ کُھرک سے ڈرتے ہیں
ایسے تائب ہوئے ہیں وہ عاشق
چوڑیوں کی کھنک سے ڈرتے ہیں
سارے راجہ اِندر ہیں اس پُرجا میں
اپنے اپنے حصے کی ملکہ کے سوا
جتنے سُندر چہرے ہیں دنیا میں ظفر
خالُو سب کے تاڑُو ہیں خالہ کے سوا
ہیں تو دو دنیاؤں کی مخلوق ظفر
کام ہے اِن کا یکساں بھی اور وکھرا بھی
قوم و وطن کا قیمہ قیمہ کرتے ہیں
خودکش حملہ آور بھی اور وزرا بھی
ایسا کوئی جادوگر بھی کر نہیں سکتا
جو جاُدو گاڑی کے مچھندر کر سکتے ہیں
جس ویگن میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے
اُس میں اور بھی بندے اندر کر سکتا ہے
قومی ریزرو ڈینجر لیول پہ ہیں تو کیا ہے
اپنی تجوریوں کی توندیں تو بھر چلے ہیں
یہ اپنے لیڈروں کو معلوم ہی نہیں ہے
کس رُوٹ کے ڈرائیور ہیں اور کدھر چلے ہیں
اچانک خوردنی اجناس کو سُوجھے خلابازی
یکایک رنگ اُڑ جائے خریداران بے بس کا
تحیر میں نہ پڑنا جان لینا کہ کہیں پھر سے
مسلماں خیر مقدم کرتے ہیں ماہ مقدس کا
موقع سے فیض اُٹھانا اُن کی ہابی ہے
جب گھاس میسر ہو جائے تو کیوں نہ چریں
آؤ کہ گاڑیں تنبو روڈ کے نُکرے پر
سیلاب زدوں کے نام پہ اپنی توند بھریں
خدا معلوم کیوں سرکار دو خطبوں سے ڈرتی ہے
اگر ہو عید جمعہ کو تو خطرہ اس میں کیسا ہے
یہی ہے ان کی منشا کہ جھلک دکھلانے سے پہلے