Pages

Sep 30, 2010

اونٹ رے اونٹ

کجکلاہانِ سیاست کا چلن کیا کہنا
راستہ راست ہے نہ فردِ عمل سیدھی ہے
اب تو اخبار جو دیکھوں تو یہ نکلے منہ سے
اونٹ رے اونٹ تری کون سی کل سیدھی ہے

Sep 29, 2010

Crusade

مسلمانو ! بہت سادہ ہو تم بھی
گمان امن کس اعلام کا ہے
صلیبی جنگ بازوں کی لغت میں
اسامہ کوڈ نیم اسلام کا ہے

Sep 28, 2010

صلیبی امریکہ

ہر مسلماں کے لئے بے جرم بھی تعزیر ہے
ہر عدالت میں صلیبی معتصب ٹکرائے گا
عدلِ واشنگٹن تو وابستہ ہے پھندے سے ظفر
جس گلے کے ناپ کا ہوگا اُسے پڑ جائے گا

Sep 27, 2010

آئیڈیل

افسانوی محبتیں افسانہ کر گئیں
خاتون کا نصیب تو چکر میں پڑ گیا
آئیڈیل کا بھوت کسی کا نہ ہونے دے
اختر میں گھس گیا کبھی انور میں پڑ گیا

Sep 25, 2010

امریکہ کا انصاف

کیوں اسامہ کا بھی نزلہ نہ گرائے اس پر
ہاتھ آ جائے اگر عافیہ جیسی بےکس
یہی امریکہ بہادر کا ہے انصاف ظفر
جس پہ چل جائے گا بس اُس پہ چڑھادے گا بس

Sep 24, 2010

فاتحانہ شکست

لوگ کرکٹ کے باب میں اب کے
جاوداں بندوبست چاہتے ہیں
ہارنے کا قلق نہیں ہے ظفر
فاتحانہ شکست چاہتے ہیں

Sep 23, 2010

رشوت

کسی سرکاری ایوان میں
کوئی فائل بھی پھنسنے نہ دی
جس کو کہتے ہیں رشوت ظفر
ماسٹر کی ہے ہر قفل کی

Sep 20, 2010

فرق

قومی کھلاڑیوں سے یہ التجا ہے میری
قوم و وطن کی حُرمت میدان میں نہ ہارو
دونوں مقابلے کے ہیں امتحان لیکن
کرکٹ میں اور جوئے میں کچھ فرق تو ہے یارو

بجلی کا بل

فلک بوس ہونے لگیں قیمتیں
گرانی کا بھونچال دہلا گیا
ظفر اب تو بجلی میں اتنا نہیں
جو بجلی کے بل میں کرنٹ آگیا

عشق کی میچورٹی

شام اک ہوٹل میں دیکھی عشق کی میچورٹی
چائے پر آئے تھے لیلٰی مجنوں ڈیٹنگ کے لئے
اور جب کہہ سُن لیا، امریکی سسٹم کے تحت
اپنے اپنے حصے کی پیمنٹ کی اور چل دئے

شرارتوں کے انداز

یوں کوئی دے رہا ہے رہ رہ کر
اپنی آمد کے سلسلے کی ڈیٹ
جیسے دیتی ہے گورنمنٹ ہم کو
لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی ڈیٹ

Sep 18, 2010

عوام الناس

سارے صیاد کامراں ٹھہرے
خوگرِ جال ہیں عوام الناس
اب سیاست کے رہزنوں میں ظفر
لوٹ کا مال ہیں عوام الناس

مضبوط حکومت

ایسا چوں چوں کا مربہ نہیں دیکھا میں نے
کوئی عفریت نوالے کو نگل نہ پایا
ایسی مضبوط حکومت ہے کہ توبہ توبہ
عید کا چاند بھی جمعہ کو نکل نہ پایا

Sep 15, 2010

علی بابا





سیاست کی چرخی بھی چلتی رہی

وزیروں مشیروں کے دوروں کے ساتھ

دکھاتے رہے ہاتھ سیلاب میں

علی بابا چالیس چوروں کے ساتھ

کارِ بیکاری

کام جیسے اور اپنا کوئی دنیا میں نہیں

کاوشِ دنیا و دیں سے مل چکی یکسر نجات

ہوبہو مِرگی کی صورت بن گئی ہے شاعری

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات

دھڑکا

ڈھل چکا عشق عقد میں جن کا

وہ دوبارہ کُھرک سے ڈرتے ہیں

ایسے تائب ہوئے ہیں وہ عاشق

چوڑیوں کی کھنک سے ڈرتے ہیں

اپنی اپنی تاڑ

سارے راجہ اِندر ہیں اس پُرجا میں

اپنے اپنے حصے کی ملکہ کے سوا

جتنے سُندر چہرے ہیں دنیا میں ظفر

خالُو سب کے تاڑُو ہیں خالہ کے سوا

یکسانیت

ہیں تو دو دنیاؤں کی مخلوق ظفر

کام ہے اِن کا یکساں بھی اور وکھرا بھی

قوم و وطن کا قیمہ قیمہ کرتے ہیں

خودکش حملہ آور بھی اور وزرا بھی

جادوگر

ایسا کوئی جادوگر بھی کر نہیں سکتا

جو جاُدو گاڑی کے مچھندر کر سکتے ہیں

جس ویگن میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے

اُس میں اور بھی بندے اندر کر سکتا ہے

ہمارے لیڈر

قومی ریزرو ڈینجر لیول پہ ہیں تو کیا ہے

اپنی تجوریوں کی توندیں تو بھر چلے ہیں

یہ اپنے لیڈروں کو معلوم ہی نہیں ہے

کس رُوٹ کے ڈرائیور ہیں اور کدھر چلے ہیں

علامات

اچانک خوردنی اجناس کو سُوجھے خلابازی

یکایک رنگ اُڑ جائے خریداران بے بس کا

تحیر میں نہ پڑنا جان لینا کہ کہیں پھر سے

مسلماں خیر مقدم کرتے ہیں ماہ مقدس کا

گھاس اور گدھا

موقع سے فیض اُٹھانا اُن کی ہابی ہے

جب گھاس میسر ہو جائے تو کیوں نہ چریں

آؤ کہ گاڑیں تنبو روڈ کے نُکرے پر

سیلاب زدوں کے نام پہ اپنی توند بھریں

جمعہ کی عید

خدا معلوم کیوں سرکار دو خطبوں سے ڈرتی ہے

اگر ہو عید جمعہ کو تو خطرہ اس میں کیسا ہے

یہی ہے ان کی منشا کہ جھلک دکھلانے سے پہلے

یہ ہم سے چاند خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے